EN हिंदी
ستارے | شیح شیری
sitare

نظم

ستارے

ن م راشد

;

نکل کر جوئے نغمہ خلد زار ماہ و انجم سے
فضا کی وسعتوں میں ہے رواں آہستہ آہستہ

بہ سوئے نوحہ آباد جہاں آہستہ آہستہ
نکل کر آ رہی ہے اک گلستان ترنم سے

ستارے اپنے میٹھے مدھ بھرے ہلکے تبسم سے
کیے جاتے ہیں فطرت کو جواں آہستہ آہستہ

سناتے ہیں اسے اک داستاں آہستہ آہستہ
دیار زندگی مدہوش ہے ان کے تکلم سے

یہی عادت ہے روز اولیں سے ان ستاروں کی
چمکتے ہیں کہ دنیا میں مسرت کی حکومت ہوں

چمکتے ہیں کہ انساں فکر ہستی کو بھلا ڈالے
لیے ہے یہ تمنا ہر کرن ان نور پاروں کی

کبھی یہ خاک داں گہوارۂ حسن و لطافت ہو
کبھی انسان اپنی گم شدہ جنت کو پھر پا لے