سینۂ خواب کھلے
جس طرح پیار میں ڈوبی ہوئی آنکھوں پہ لرزتی ہوئی
پلکوں کا نشہ کھلتا ہے
جس طرح بند کتابوں پہ کسی پھول کے کھلنے کا گماں کھلتا ہے
جس طرح ہاتھ کی پوروں پہ کبھی
پہلے پہلے سے کسی تجربۂ لمس محبت کا اثر کھلتا ہے
سینۂ خواب کھلے
سینۂ خواب کھلے اور میں دیکھوں وہ کم آثار جوانی کا خمار
وہی حیرت جسے میں نے فقط ایک سانس کی ڈوری
میں پرو لینے کی خواہش کی تھی
وہ تذبذب کہ جسے کمسن و کم خواب نگاہوں کے بھروسے نے
گلاب اور چنبیلی کی مہک بخشی تھی
مرتعش ہونٹوں پہ موہوم تبسم کا وہ احساس جسے
حرف و آواز بغیر
کعبۂ دل نے ترے چہرۂ گلفام پہ مبعوث کیا
اور پھر میری نگاہوں کی طرف
تیرے آغاز کو بیدار کیا
اے سخن ساز نگاہوں والے
وقت نے عمر گزشتہ کے کئی باب لکھے
اور ہر باب کی دہلیز کسی خواب مقفل کی طرح گم سم ہے
کوئی دستک کوئی آواز کوئی حرف صبا
کوئی تدبیر کہ اس لمحۂ موجود کے مر جانے سے پہلے پہلے
کاش اس خواب مقفل کا بھی سینہ کھل جائے
اور میں دیکھ سکوں
تیرے موہوم تبسم کی کہانی کا حوالہ کیا تھا
اور اب مجھ سے گنہ گار محبت کی تباہی کا ازالہ کیا ہے
نظم
سینۂ خواب کھلے
ایوب خاور