EN हिंदी
سدھارتھ کی ایک رات | شیح شیری
siddhaarth ki ek raat

نظم

سدھارتھ کی ایک رات

گلزار

;

کوئی پتا بھی نہیں ہلتا، نہ پردوں میں ہے جنبش
پھر بھی کانوں میں بہت تیز ہواؤں کی صدا ہے

کتنے اونچے ہیں یہ محراب محل کے
اور محرابوں سے اونچا وہ ستاروں سے بھرا تھال فلک کا

کتنا چھوٹا ہے مرا قد۔۔۔
فرش پر جیسے کسی حرف سے اک نقطہ گرا ہو

سینکڑوں سمتوں میں بھٹکا ہوا من ٹھہرے ذرا
دل دھڑکتا ہے تو بس دوڑتی ٹاپوں کی صدا آتی ہے

روشنی بند بھی کر دینے سے کیا ہوگا اندھیرا؟
صرف آنکھیں ہی نہیں دیکھ سکیں گی یہ چوگردہ، میں اگر کانوں میں کچھ ٹھونس بھی لوں

روشنی چنتا کی تو ذہن سے اب بجھ نہیں سکتی
خودکشی ایک اندھیرا ہے، اپائے تو نہیں

کھڑکیاں ساری کھلی ہیں تو ہوا کیوں نہیں آتی؟
نیچے سردی ہے بہت اور ہوا تند ہے شاید

دور دروازے کے باہر کھڑے وہ سنتری دونوں
شام سے آگ میں بس سوکھی ہوئی ٹہنیوں کو جھونک رہے ہیں

میری آنکھوں سے وہ سوکھا ہوا ڈھانچہ نہیں گرتا
جسم ہی جسم تو تھا، روح کہاں تھی اس میں

کوڑھ تھا اس کو تپ دق تھا؟ نہ جانے کیا تھا؟
یا بڑھاپا ہی تھا شاید۔۔۔

پسلیاں سوکھے ہوئے کیکروں کے شاخچے جیسے
رتھ پہ جاتے ہوئے دیکھا تھا

چٹانوں سے ادھر۔۔۔
اپنی لاٹھی پہ گرے پیڑ کی مانند کھڑا تھا

پھر یکا یک یہ ہوا
سارتھی، روک نہیں پایا تھا، منہ زور سمے کی ٹاپیں

رتھ کے پہیے کے تلے دیکھا تڑپ کر اسے ٹھنڈا ہوتے!
خودکشی تھی؟ وہ سمرپن تھا؟ وہ درگھٹنا تھی؟

کیا تھا؟
سبز شاداب درختوں کے وجود

اپنے موسم میں تو بن مانگے بھی پھل دیتے ہیں
سوکھ جاتے ہیں تو سب کاٹ کے

اس آگ میں ہی جھونک دیئے جاتے ہیں
جیسے دروازے پہ اعمال کے وہ دونوں فرشتے

شام سے آگ میں بس
سوکھی ہوئی ٹہنیوں کو جھونک رہے ہیں