EN हिंदी
شعاع فردا | شیح شیری
shua-e-farda

نظم

شعاع فردا

ساحر لدھیانوی

;

تیرہ و تار فضاؤں میں ستم خوردہ بشر
اور کچھ دیر اجالے کے لئے ترسے گا

اور کچھ دیر اٹھے گا دل گیتی سے دھواں
اور کچھ دیر فضاؤں سے لہو برسے گا

اور پھر احمریں ہونٹوں کے تبسم کی طرح
رات کے چاک سے پھوٹے گی شعاعوں کی لکیر

اور جمہور کے بیدار تعاون کے طفیل
ختم ہو جائے گی انساں کے لہو کی تقطیر

اور کچھ دیر بھٹک لے مرے درماندہ ندیم
اور کچھ دن ابھی زہراب کے ساغر پی لے

نور افشاں چلی آتی ہے عروس فردا
حال تاریک و سم افشاں سہی لیکن جی لے