ہجوم ہے
کہ آگ کے پہاڑ سے گرا ہوا الاؤ ہے
کوئی نہیں جو کہہ سکے
کہ ایک پل کو ٹھہر کر بتاؤ تو
کہاں چلے ہو، کس طرف
ہجوم کیا ہے
بے شمار منتشر اکیلے پن کی بھیڑ ہے
جو آپ اپنی آہٹوں کے ڈر سے لڑکھڑا گئی
غبار نقش پا اٹھا
تو جم گیا غلاف چشم و گوش پر
یہ قافلہ بھٹک رہا ہے منزلوں کو رکھ کے اپنے دوش پر
نہیں کسی کو ہوش، پر
کوئی تو ہو جو کہہ سکے
کہ ''عازمین بے جہت''!
نہ منزلیں نہ راستے
تو پھر غبار بن کے اڑ رہے ہو کس کے واسطے
کسی نے کہہ دیا تو کیا
نشیب میں تو تیز تر ہجوم کا بہاؤ ہے
پہاڑ کے دباؤ سے نشیب میں کٹاؤ ہے
کٹاؤ کے سفر میں کب کہاں کوئی پڑاؤ ہے
عذاب مشتعل میں اب نہ نوح ہے نہ ناؤ ہے
پتا ہے؟
نہیں فقط الاؤ ہے
اور آگ کے پہاڑ سے گرا ہوا الاؤ ہے
نظم
شارٹ کٹ
سید مبارک شاہ