ہوئی پھر امتحان عشق کی تدبیر بسم اللہ
ہر اک جانب مچا کہرام دار و گیر بسم اللہ
گلی کوچوں میں بکھری شورش زنجیر بسم اللہ
در زنداں پہ بلوائے گئے پھر سے جنوں والے
دریدہ دامنوں والے پریشاں گیسوؤں والے
جہاں میں درد دل کی پھر ہوئی توقیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحان عشق کی تدبیر بسم اللہ
گنو سب داغ دل کے حسرتیں شوقیں نگاہوں کی
سر دریا پرستش ہو رہی ہے پھر گناہوں کی
کرو یارو شمار نالۂ شبگیر بسم اللہ
ستم کی داستاں کشتہ دلوں کا ماجرا کہیے
جو زیر لب نہ کہتے تھے وہ سب کچھ برملا کہیے
مصر ہے محتسب راز شہیدان وفا کہیے
لگی ہے حرف نا گفتہ پہ اب تعزیر اللہ
سر مقتل چلو بے زحمت تقصیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحان عشق کی تدبیر بسم اللہ
نظم
شورش زنجیر بسم اللہ
فیض احمد فیض