اب شور تھما تو میں نے جانا
آدھی کے قریب رو چکی ہے
شب گرد کو اشک دھو چکی ہے
چادر کالی خلا کی مجھ پر
بھاری ہے مثل موت شہپر
ہے سانس کو رکنے کا بہانہ
تسبیح سے ٹوٹتا ہے دانہ
میں نقطہ حقیر آسمانی
بے فصل ہے بے زماں ہے تو بھی
کہتی ہے یہ فلسفہ طرازی
لیکن یہ سنسناتی وسعت
اتنی بے حرف و بے مروت
آمادۂ حرب لازمانی
دشمن کی اجنبی نشانی
نظم
شور تھمنے کے بعد
شمس الرحمن فاروقی