رخصت ہوتے سورج کی کرنوں کا آنچل تھامے تھامے
میں بھی چھت پر جا پہنچی تھی
مرے گلے شکوہ تو سارے گونگے بن بیٹھے تھے
اور میری کچھ کہتی آنکھیں
بارہ دری کی چلمن کے حالوں میں پھنستی تھیں
پھر کیوں گاؤں سے جاتے جاتے
گلی کے موڑ پہ رکتے رکتے
تم نے اوپر، میری جانب دیکھا تھا
اور تمہارا اٹھتا ہاتھ ذرا سا کانپ گیا تھا
اور تمہاری روشن روشن آنکھیں بجھ سی گئی تھیں
دور افق میں سورج ڈوب گیا تھا
نظم
شکوے کی شام
ناہید قاسمی