مجھے شکوہ نہیں دنیا کی ان زہرہ جبینوں سے
ہوئی جن سے نہ میرے شوق رسوا کی پذیرائی
مجھے شکوہ نہیں ان پاک باطن نکتہ چینوں سے
لب معجزنما نے جن کے مجھ پر آگ برسائی
مجھے شکوہ نہیں تہذیب کے ان پاسبانوں سے
نہ لینے دی جنہوں نے فطرت شاعر کو انگڑائی
مجھے شکوہ نہیں دیر و حرم کے آستانوں سے
وہ جن کے در پہ کی ہے مدتوں میں نے جبیں سائی
مجھے شکوہ نہیں افتادگان عیش و عشرت سے
وہ جن کو میرے حال زار پر اکثر ہنسی آئی
مجھے شکوہ نہیں ان صاحبان جاہ و ثروت سے
نہیں آتی مرے حصہ میں جن کی ایک بھی پائی
زمانہ کے نظام زنگ آلودہ سے شکوہ ہے
قوانین کہن آئین فرسودہ سے شکوہ ہے
نظم
شکوہ مختصر
اسرار الحق مجاز