بالکنی سے باہر جھانکا
آئینے میں صورت دیکھی
لپ اسٹک سے ہونٹ سنوارے
اپنی گھڑی کو جھوٹا سمجھا
باہر آ کر وقت ملایا
وقت کو بھی جب سچا پایا
غصے میں دانت اپنے پیسے
ریشم جیسے بال کھسوٹے
سارے خط چولھے میں جھونکے
آئینے پر پتھر مارا
اتنے میں پھر آہٹ پائی
دوڑی دوڑی باہر آئی
لیکن خود کو تنہا پایا
آج اس نے پھر دھوکا کھایا!
نظم
شکست
آفتاب شمسی