EN हिंदी
شوق | شیح شیری
shauq

نظم

شوق

افتخار اعظمی

;

شام جب ڈھلتی ہے میں اپنے خرابے کی طرف
لوٹتا ہوں سرنگوں، بوجھل قدم

بارہ گھنٹوں کی مشقت اور تھکن
بڑھ کے لے لیتی ہے مجھ کو گود میں

اور سیل تیرگی میں ڈوب جاتی ہے امید و شوق کی اک اک کرن
رہ گزار آرزو پر چار سو اڑتی ہے دھول

اور اک آواز آتی ہے کہیں سے
جو کہ انجانی بھی پہچانی بھی ہے

زندگی کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں
اک مسلسل مرگ، اک سیل بلا، نیزوں کے بن

آہوں، کراہوں کے سوا
پھر اسی تاریک لمحے، پھر اسی نازک گھڑی

آرزو کی رہ گزر پر چند نقش پا ابھرتے ہیں ستاروں کی طرح
لہلہاتا ہے کوئی آنچل بہاروں کی طرح

پھیل جاتی ہے کسی گیسو کی نکہت چار سو
ایک فردوسی تبسم کی سنہری چاندنی

دھیمے دھیمے، زینہ زینہ
گنگناتی، رقص فرماتی ہوئی

بام غم سے خانۂ دل میں اتر کر
تھپتھپاتی ہے مجھے

گیت گاتی ہے، کبھی لوری سناتی ہے مجھے
اور پھر جب صبح کو خورشید عالم تاب کی پہلی کرن

گدگداتی ہے مجھے
کار گاہ دہر میں واپس بلاتی ہے مجھے

آرزو و جستجو دل میں جواں پاتا ہوں میں
شوق کی مے کے نشے میں چور ہو جاتا ہوں میں!!