لمحۂ نو عظیم ہے
سوزش دل ہے کیا بلا جذب و جنوں بھی کچھ نہیں
سانجھ سماج ہیچ ہیں رشتہ خوں بھی کچھ نہیں
حسرت و آرزو کی نے بندش و بستگی کی لے
دمدمۂ قدیم ہے
عہد کہن گزر گیا لمحۂ نو عظیم ہے
آج کا سحر بے بدل آج کی لو عظیم ہے
عطر کی روح میں بسی عصر کے روپ میں رچی
پھوٹتی پو عظیم ہے یہ تگ و دو عظیم ہے
بحر جدید اوج موج اس میں گہر ہیں موج موج
سطح بہ سطح سب صدف نور کی رو عظیم ہے
تازہ ترین یہ جہاں تازہ نجوم و آسماں
ان کی جھلک جدا جدا ان کا جلو عظیم ہے
اور ہے اس کی تاب و تب اور ہے چال اور چھب
جو خد و خال ہوں سو ہوں آئنہ تو عظیم ہے
لمحۂ نو عظیم ہے
اس میں ریاستوں کا دھن سارے نشاط
سب محن
عیش کا دل و بدن غارت زندگی کا فن
ایک بٹن کا مرحلہ
نظم
شش جہت
اختر عثمان