یہ مے کدہ ہے ترا اور میں شرابی ہوں
سنبھال ساقیا مینا کو اپنے ہاتھوں میں
مجھے بھی آج مع ارغواں کی حاجت ہے
سرک رہے ہیں رخ کائنات سے پردے
دل و دماغ میں اک روشنی سی در آئی
ہر ایک گھونٹ پہ کچھ زندگی کے راز کھلے
محیط ہو گئی کون و مکاں کی گیرائی
مگر یہ جام کے اندر بھی کیسی تاریکی
بہت ہی تلخ ہے اپنا خمار بادہ کشی
کہیں چراغ بجھا جل اٹھے کہیں فانوس
وہی تضاد وہی ہے کشاکش ہستی
حیات آج کہاں کھینچ کر مجھے لائی
سنبھال ساقیا مینا کو اپنے ہاتھوں میں
حیات کے لئے کوئی شراب ہے کہ نہیں
بس ایک بار تو ایسی پلا دے اے ساقی
کہ ہوش آ نہ سکے تیرے پینے والے کو
نظم
شرابی
انجم اعظمی