EN हिंदी
شمسہ | شیح شیری
shamsa

نظم

شمسہ

خواجہ ربانی

;

وہ نرگس بھی ہیرا بھی شمع بھی ایوان بھی تھا
کتابوں میں خود تذکرہ سر ورق نفس مضمون

دیبا بھی شمسہ بھی عنوان بھی تھا
ابھی کچھ برس قبل اندر کے صفحوں پہ ٹھہرا

ذرا دیر گزری تو صفحے پہ نیچے کی سطروں میں اترا
وہ اب حاشیے پر پڑا ہے

خدا جانے کب کون اس کو پڑھے گا
پڑھے گا کبھی

کہیں دل میں اک خوف سا ہے
یہ سورج جو ڈھلنے لگا ہے چڑھے گا

چڑھے گا کبھی