اے بی بی حوا
ہم تیرے بچے
تجھ سے بچھڑ کے
بشری سمندر کے
پے در پے تھپیڑوں سے
دور اور بھی دور ہو گئے ہیں
بھیڑ میں کھو گئے ہیں
تمہارے ہمارے
درمیاں تھا جو حرف شیریں کا قصہ
وہ درد آشنا لمحہ، وہ ممتا سے لبریز رشتہ
اس رشتے کی ڈور سے بندھے
ہم خلاؤں میں ہچکولے کھا رہے ہیں
پتنگوں کی مانند
ننھے بچے کے ہاتھوں سے جوں
چھوٹ جائے
غباروں کی ڈور
اور بکھر جائیں جیسے
آسماں کی ناپید بلندیوں میں سبھی
ہم بھی،
ان ہی غباروں کی طرح
اے بی بی حوا
تجھ سے بچھڑ کے
بھٹکتے رہے ہیں
ہر لمحہ اس الجھتی بھول بھلیوں سی دنیا میں
جی رہے ہیں
کسی طور
تیری ممتا کی چاہ میں، آس لگائے
شاید
خدا کو
ہم پر بھی کبھی ترس آ جائے
اور۔۔۔
ناف کے اس الجھے ہوئے رشتے کا سرا
دوبارہ کہیں جا کے پھر تجھ سے مل جائے
شاید
پھر کوئی دنیا
کن فیکون سے
خلق ہو جائے!
جہاں باغ بہشت کے مکیں ہوں
اور ہم ہوں
جہاں ابلیس کا نہ ہو گزر
جہاں شیطان کا نہ ڈر ہو
جہاں امن و آشتی ہو تمام!
اے کاش!
اپنا بھی ایسا گھر ہو
شجر ممنوعہ سے پرے
نظم
شجر ممنوعہ سے پرے
پرویز شہریار