سوچتا ہوں میں
تمہارے زیر لب حرف سخن میں
کوئی افسانہ ہے مضمر یا حقیقت یا فریب پختہ کاراں
میں نظر رکھتا ہوں تم پر
اور تمہاری آنکھ ہے پیہم تعاقب میں کسی اک اجنبی کے
اجنبی جو خود ہراساں اور پریشاں حال ہے
دوسری جانب سڑک پر دیر سے اک اور شخص
جھوٹ کو سچ کہہ کے جو اعلان کرتا پھر رہا ہے
دل ہی دل میں ڈر رہا ہے
اڑتے جاتے ہیں سبھی چہروں کے رنگ
گٹھریاں اپنی سمیٹے
شہر سے باہر نکلتے راستوں پر ہر کوئی ہے گامزن
اس بے اعتباری آگہی کے درمیاں
اک عصا بردار کچھ کہتا ہوا
جس کا اک اک لفظ پیوستہ ہے
یوں اک دوسرے سے
جس طرح نزدیک تر آتے ہوئے قدموں کی چاپ
نظم
شہر سے باہر نکلتے راستے
شاہین غازی پوری