رخصت اے ہم سفرو شہر نگار آ ہی گیا
خلد بھی جس پہ ہو قرباں وہ دیار آ ہی گیا
یہ جنوں زار مرا میرے غزالوں کا جہاں
میرا نجد آ ہی گیا میرا تتار آ ہی گیا
آج پھر تا بہ چمن در پئے گلہائے چمن
گنگناتا ہوا زنبور بہار آ ہی گیا
گیسوؤں والوں میں ابرو کے کمان داروں میں
ایک صید آ ہی گیا ایک شکار آ ہی گیا
باغبانوں کو بتاؤ گل و نسریں سے کہو
اک خراب گل و نسرین بہار آ ہی گیا
خیر مقدم کو مرے کوئی بہ ہنگام سحر
اپنی آنکھوں میں لئے شب کا خمار آ ہی گیا
زلف کا ابر سیہ بازوئے سیمیں پہ لئے
پھر کوئی نغمہ زن ساز بہار آ ہی گیا
ہو گئی تشنہ لبی آج رہین کوثر
میرے لب پر لب لعلین نگار آ ہی گیا
نظم
شہر نگار
اسرار الحق مجاز