یہ تیز دھوپ یہ کاندھوں پہ جاگتا سورج
زمیں بلند ہے اتنی کہ آسماں کی رقیب
وہ روشنی ہے وہ بیداریاں کہ سائے نہ خواب
بس ایک ہوش بس اک آگہی بس اک احساس
اور ان کے نور سے جلتے بدن پگھلتے بدن
بدن ہیں کھولتے سیال آئینے ہر سو
ہر آن بہتے سدا ہیئتیں بدلتے بدن
دماغ دور سے ان کا نظارہ کرتا ہے
اور ان کے قرب کے اظہار سے سنورتا ہے
وہ روشنی ہے کہ از فرد تا بہ فرد تمام
کسی کی شکل نہ صورت کسی کا رنگ نہ روپ
تمام انفس و آفاق گم ہیں آپس میں
ہیں فرد فرد کی پرچھائیاں بھی دھوپ ہی دھوپ
سب اپنے علم کا جادوئے سامری لے کر
ہزار آنکھوں سے اک دوسرے کو دیکھتے ہیں
رواں دواں ہیں سب اک دوسرے کو دیکھتے ہیں
اور اتنا جان چکے ہیں سب ایک دوسرے کو
کچھ اتنی دور نکل آئے ہیں سب اپنے سے
کہ دل کے رشتوں کو اب مانتا نہیں کوئی
کسی کو اپنے سوا جانتا نہیں کوئی

نظم
شہر انا میں
شہاب جعفری