EN हिंदी
شہر آرزو | شیح شیری
shahr-e-arzu

نظم

شہر آرزو

حمید الماس

;

کوئی بتائے کہاں شہر آرزو ہوگا
کہ جس مقام پہ دامن کے چاک سلتے ہیں

نئی حیات نئی صبح و شام ملتے ہیں
اداس اداس ہیں راتیں اداس اداس ہیں دن

کٹے گی راہ کوئی داستاں سناتے چلو
حکایت بت لالہ و شاں سناتے چلو

کسی کی زود پشیماں نگاہیوں کا طلسم
کسی خراب نگاہ کرم کا ذکر کرو

وفائے وعدہ و قول و قسم کا ذکر کرو
ہر ایک آبلہ پا اور سر جنوں پیشہ

دلوں کے کعبے میں پتھر سجائے پھرتا ہے
افق افق پہ نگاہیں جمائے پھرتا ہے

اداس ہم سفرو سوئے دل بھی ایک نظر
اچھل رہا ہے بڑی دیر سے لہو اپنا

یہیں کہیں نہ ملے شہر آرزو اپنا