EN हिंदी
شہر اور میں | شیح شیری
shahr aur main

نظم

شہر اور میں

چندر بھان خیال

;

دل پہاڑوں پر چلا جائے کہ میدانوں میں ہو
بھیڑ میں لوگوں کی یا خالی شبستانوں میں ہو

شور پھر بھی تیز طوفانوں کی صورت ہر گھڑی
توڑتا رہتا ہے خلوت خواہ سینوں کا جمود

ریزہ ریزہ ہو گئے میری طرح کتنے وجود
اب نہیں ممکن کسی صحرا میں مجنوں کا ورود

ناتواں شخصیتیں برقی توانائی لیے
رات کے کالے بدن کو چاٹ کر ہیں مطمئن

جل رہا ہے ہر شجر اس شہر کا اب رات دن
اڑ رہے ہیں ہاتھ سے طوطوں کی صورت سال و سن

روشنی کا رنگ جیسے کچھ سمجھ آتا نہیں
شہر کی تہذیب کا رخ کس طرف ہے کیا پتہ

آدمی سادہ ہے یا خنجر بکف ہے کیا پتہ
کس لیے یہ شور مہمل صف بہ صف ہے کیا پتہ

میں نے ہر انداز سے سمجھا ہے سارے شہر کو
شہر جو خوابوں کے جنگل کے سوا کچھ بھی نہیں

عمر ساری چھین کر جس نے دیا کچھ بھی نہیں
جیسے میرے واسطے باقی رہا کچھ بھی نہیں

اپنے گالوں پر طمانچہ جڑ کے خوش ہو جاؤں میں
آج روشن قمقموں کے بیچ جاگا یہ شعور

یوں تو ہر موسم کے چہرے پر نمایاں ہیں سطور
اک پرندہ تک نہیں لیکن ہوا میں دور دور

مچھلیاں چھت پر سکھانے کے لیے جب خواہشیں
سیڑھیوں پر پاؤں رکھتی ہیں تو آ جاتی ہے چیل

ٹھونک دی جائے گی اب شاید سبھی ذہنوں میں کیل
اٹھ رہی ہے ہر طرف جلتے اندھیروں کی فصیل

گیروا کپڑوں میں لپٹا زرد مستقبل مجھے
مشورہ دیتا رہے گا اور میں مر جاؤں گا