مشتہر موت کی آرزو نے اسے
مضطرب کر دیا اس قدر ایک دن
وہ صلیبوں کے اعداد پر روز و شب
غور کرنے لگا
امتحاں کے لیے دشت کو چل دیا
اپنے حصے کی جب منتخب کر چکا
اس نے تاریخ کے زرد اور ایک پر
نام اپنا خوشی سے رقم کر دیا
ایک پر اس کا سر
دوسری پر جگر
تیری پر لٹکتا ہوا اس کا جذبوں سے معمور دل
اس کی آنتیں یہاں
اس کی پھانکیں یہاں
اس کی اپنی صلیب آج کوئی نہیں
زرد اوراق سے مٹ گئے سب نشاں
دشت میں دور تک چیختی آندھیاں
ختم اس کی ہوئی مشتہر داستاں
نظم
شہید
بلراج کومل