EN हिंदी
شہر‌ زادے | شیح شیری
shahar-zade

نظم

شہر‌ زادے

سلمان ثروت

;

اس دور کے ہیں قصہ گو
ہم شہر زادوں کی سنو

یہ داستان زیست ہے
کچھ خواب کی تعبیر ہے

کچھ درد کی تمثیل ہے
آئندگاں کا شہر یا ہے رفتگاں کی آرزو

اک گہما گہمی کو بہ کو پھیلی ہوئی ہے چار سو
ایجاد در ایجاد ہوتی خواہشیں اور جستجو

ہر سمت میں بڑھتا ہوا یہ کار زار رنگ بو
آسائشوں کے اس گھنے جنگل میں تنہا میں کہ تو

ہم مشعل آشفتہ لو
ہم شہرزادوں کی سنو

اور آسماں سے باتیں کرتیں ان فصیلوں کا یہ جال
اس جال میں محبوس ہوتی روز و شب یہ زندگی

اس زندگی سے منقلب ہوتی ہوئی وارفتگی
ہر آن ہے کوئی خلش ہر پل کہ جیسے تشنگی

ہر حال میں پھر بھی مقدم کاوش آسودگی
ہم آسماں کے راہرو

ہم شہر زادوں کی سنو
اس کوچہ و بازار میں اجناس کے انبار ہیں

فطرت سے کوسوں دور ہیں یہ جو بھی کاروبار ہیں
اس دوڑ میں سب لوگ ہی پیہم سبک رفتار ہیں

اپنی مشینی زندگی ہم آدمی بیزار ہیں
لیکن ہمارے حوصلے اس دور کے معمار ہیں

ہم سے ملی تاروں کو ضو
ہم شہر زادوں کی سنو

ہے خود فراموشی پہ غالب خود فریبی کی چبھن
تکرار سے تعبیر ہیں یہ زندگی کے ماہ و سن

یکسانیت کے دشت میں کھلتا ہے ندرت کا چمن
مایوس جذبوں سے ادھر کچھ کر دکھانے کی لگن

بیم و رجا کے درمیاں ہم شہر زادے ہیں مگن
ہم شہر زادوں کی سنو

ہم راقم تاریخ نو