EN हिंदी
شباب گریزاں | شیح شیری
shabab-e-gurezan

نظم

شباب گریزاں

ن م راشد

;

مئے تازہ و ناب حاصل نہیں ہے
تو کر لوں گا درد تہ جام پی کر گزارا!

مجھے ایک نو رس کلی نے
یہ طعنہ دیا تھا:

تری عمر کا یہ تقاضا ہے
تو ایسے پھولوں کا بھونرا بنے

جن میں دو چار دن کی مہک رہ گئی ہو
یہ سچ ہے وہ تصویر

جس کے سبھی رنگ دھندلا گئے ہوں
نئے رنگ اس میں بھرے کون لا کر

نئے رنگ لائے کہاں سے؟
ترے آسماں کا،

میں اک تازہ وارد ستارا سہی
جانتا ہوں کہ، اس آسماں پر

بہت چاند، سورج، ستارے ابھر کر
جو اک بار ڈوبے تو ابھرے نہیں ہیں

فراموش گاری کے نیلے افق سے،
انہی کی طرح میں بھی

نا تجربہ کار انساں کی ہمت سے آگے بڑھا ہوں،
جو آگے بڑھا ہوں،

تو دل میں ہوس یہ نہیں ہے
کہ اب سے ہزاروں برس بعد کی داستانوں میں

زندہ ہو اک بار پھر نام میرا!
یہ شام دل آویز تو اک بہانہ ہے،

اک کوشش ناتواں ہے
شباب گریزاں کو جاتے ہوئے روکنے کی

وگرنہ ہے کافی مجھے ایک پل کا سہارا،
ہوں اک تازہ وارد، مصیبت کا مارا

میں کر لوں گا درد تہ جام پی کر گزارا!