یہ برستا ہوا موسم یہ شب تیرہ و تار
کسی مدھم سے ستارے کی ضیا بھی تو نہیں
اف یہ ویرانیٔ ماحول یہ ویرانئ دل
آسمانوں سے کبھی نور بھی برسا ہوگا
برق الہام بھی لہرا گئی ہوگی شاید
لیکن اب دیدۂ حسرت سے سوئے عرش نہ دیکھ
اب وہاں ایک اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
دیکھ اس فرش کو جو ظلمت شب کے با وصف
روشنی سے ابھی محروم نہیں ہیں شاید
اک نہ اک ذرہ یہاں اب بھی دمکتا ہوگا
کوئی جگنو کسی گوشے میں چمکتا ہوگا
یہ زمیں نور سے محروم نہیں ہو سکتی
کسی جاں باز کے ماتھے پہ شہادت کا جلال
کسی مجبور کے سینے میں بغاوت کی ترنگ
کسی دوشیزہ کے ہونٹوں پہ تبسم کی لکیر
قلب عشاق میں محبوب سے ملنے کی امنگ
دل زہاد میں ناکردہ گناہوں کی خلش
دل میں اک فاحشہ کے پہلی محبت کا خیال
کہیں احساس کا شعلہ ہی فروزاں ہوگا
کہیں افکار کی قندیل ہی روشن ہوگی
کوئی جگنو کوئی ذرہ تو دمکتا ہوگا
یہ زمیں نور سے محروم نہیں ہو سکتی
یہ زمیں نور سے محروم نہیں ہو سکتی
نظم
شب تاب
گوپال متل