جب بن سیاہ رات کے تاروں سے بھر گئے
کنج چمن میں چمکے شگوفے نئے نئے
مجھ کو ہوا نے بات سجھائی عجیب سی
بادل میں ایک شکل دکھائی عجیب سی
چاند آسماں کی سیج پہ سویا ہوا ملا
رنگ گل انار میں لتھڑا ہوا ملا
اے عاشقان حسن ازل غور سے سنو
میں برگ بے نوا تو نہیں ہوں کہ چپ رہوں
دل کے کسی بھی شعلے کو عریاں نہ کر سکوں
میں تیغ ہاتھ میں لیے سوئے فلک گیا
جذبوں کے رس سے مہکے ہوئے چاند تک گیا
کافی تھا ایک وار مری تیغ تیز کا
مہتاب کے بدن سے لہو پھوٹ کر بہا
نظم
شب خوں
منیر نیازی