پھر گھور اماوس
رات میں کوئی
دیپ جلا
اک دھیمے دھیمے
سناٹے میں
پھول ہلا
کوئی بھید کھلا
اور بوسیدہ
دیوار پہ بیٹھی
یاد ہنسی
اک ہوک اٹھی
اک پتا ٹوٹا
سرسر کرتی ٹہنی سے
اک خواب گرا
اور کانچ کی
درزوں سے
کرنوں کا
جال اٹھا
کچھ لمحے سرکے
تاروں کی
زنجیر ہلی
شب ڈوب گئی

نظم
شب ڈوب گئی
گلناز کوثر