EN हिंदी
شب ڈوب گئی | شیح شیری
shab Dub gai

نظم

شب ڈوب گئی

گلناز کوثر

;

پھر گھور اماوس
رات میں کوئی

دیپ جلا
اک دھیمے دھیمے

سناٹے میں
پھول ہلا

کوئی بھید کھلا
اور بوسیدہ

دیوار پہ بیٹھی
یاد ہنسی

اک ہوک اٹھی
اک پتا ٹوٹا

سرسر کرتی ٹہنی سے
اک خواب گرا

اور کانچ کی
درزوں سے

کرنوں کا
جال اٹھا

کچھ لمحے سرکے
تاروں کی

زنجیر ہلی
شب ڈوب گئی