EN हिंदी
شاید | شیح شیری
shayad

نظم

شاید

راشد آذر

;

میں تو ہر رات یہی سوچ کے سوتا ہوں کہ کل
صبح شاید ترے دیدار کا سورج نکلے

اور ہر روز ترے خواب لیے آنکھوں میں
در بہ در گھومتا پھرتا ہوں کہ دن کٹ جائے

اور پھر رات کو جب لوٹ کے آؤں گھر کو
منتظر ہو ترا پیکر مرے دروازے پر

یا تو پھر کل کی طرح رات گزر جائے مری
اور جب صبح کو جاگوں تو تجھی کو دیکھوں