''وہ جھک کے زمیں پر
بغلوں میں دے کر ہاتھ ہماری
ہم کو اٹھاتا ہے
تاروں تک لاتا ہے
پھر ہاتھ ہٹا کر
ہم کو گرنے چھوڑتا ہے
سرد و تاریک خلاؤں میں
شاید اس کی یہ خواہش ہوتی ہے
ہم اپنے دونوں بازو لہرائیں
اور اوپر اٹھتے جائیں
حتی کہ
تنہائی کے ابد میں اس کے داخل ہوں
اور ہاتھ بڑھا کر
کانپتی پوروں سے اپنی
اس کے غمگیں چہرے کو چھو لیں''
نظم
شاید
آصف رضا