EN हिंदी
شام کی پروائی | شیح شیری
sham ki purwai

نظم

شام کی پروائی

علینا عترت

;

آج پرواز خیالوں نے جدا سی پائی
آج پھر بھولی ہوئی یاد کسی کی آئی

جسم میں ساز کھنکنے کا ہوا ہے احساس
اور بجنے لگی سرگم سی کہیں ذہن کے پاس

میری زلفوں نے بکھر کر کوئی سرگوشی کی
کیسی آواز ہوئی آج یہ خاموشی کی

تیری آہٹ ترا انداز جدا ہے اب بھی
تو ہی دنیائے محبت کی صدا ہے اب بھی

اس تصور پہ علیناؔ کو ہنسی آئی ہے
یہ کوئی اور نہیں شام کی پروائی ہے