یک بہ یک
دھوپ نیچے گری
جیسے چینی کی اک طشتری ہاتھ خاموش ساعت کے آگے لرزنے لگا
اور کہنے سے ہونٹوں کے اندر
چھپی برق آ کر چمکنے لگی
آشیاں جل گیا
شام کا رقص میدان ہنگامۂ خوف میں
گرم ہوتا رہا
پنکھڑی پنکھڑی قطرہ قطرہ اترتا رہا
میں کہ دیوار کے سامنے دھوپ کا تیز جھونکا بنوں
آگ کے درمیاں ایک پانی کا قطرہ بنوں
خوں زبانوں کے شاداب میں ایک آواز ہونے کا صحرا بنوں
روح کی گرم لہروں میں اک چشم ہونے کا چشمہ بنوں
تیز مصروف آنکھوں میں اک حادثہ کا تماشہ بنوں
اور
وہ
خواب کی انگلیوں میں پھنسا نام ہے
نیلے پتوں میں رستا ہوا سبزۂ سرد ایام ہے
ہاں یوں ہی بیٹھے بیٹھے مری ساری باتیں سنو
رونے ہنسنے کی کوئی ضرورت نہیں
نظم
شام کا رقص
اسلم عمادی