یہ کون مسکراہٹوں کا کارواں لئے ہوئے
شباب شعر و رنگ و نور کا دھواں لئے ہوئے
دھواں کہ برق حسن کا مہکتا شعلہ ہے کوئی
چٹیلی زندگی کی شادمانیاں لئے ہوئے
لبوں سے پنکھڑی گلاب کی حیات مانگے ہے
کنول سی آنکھ سو نگاہ مہرباں لئے ہوئے
قدم قدم پہ دے اٹھی ہے لو زمین رہگزر
ادا ادا میں بے شمار بجلیاں لئے ہوئے
نکلتے بیٹھتے دنوں کی آہٹیں نگاہ میں
رسیلے ہونٹ فصل گل کی داستاں لئے ہوئے
خطوط رخ میں جلوہ گر وفا کے نقش سر بسر
دل غنی میں کل حساب دوستاں لئے ہوئے
وہ مسکراتی آنکھیں جن میں رقص کرتی ہے بہار
شفق کی گل کی بجلیوں کی شوخیاں لئے ہوئے
ادائے حسن برق پاش شعلہ زن نظارہ سوز
فضائے حسن اودی اودی بجلیاں لئے ہوئے
جگانے والے نغمۂ سحر لبوں پہ موجزن
نگاہیں نیند لانے والی لوریاں لئے ہوئے
وہ نرگس سیاہ نیم باز مے کدہ بہ دوش
ہزار مست راتوں کی جوانیاں لئے ہوئے
تغافل و خمار اور بے خودی کی اوٹ میں
نگاہیں اک جہاں کی ہوشیاریاں لئے ہوئے
ہری بھری رگوں میں وہ چہکتا بولتا لہو
وہ سوچتا ہوا بدن خود اک جہاں لئے ہوئے
ز فرق تا قدم تمام چہرہ جسم نازنیں
لطیف جگمگاہٹوں کا کارواں لئے ہوئے
تبسمش تکلمے تکلمش ترنمے
نفس نفس میں تھرتھراتا ساز جاں لئے ہوئے
جبین نور جس پہ پڑ رہی ہے نرم چھوٹ سی
خود اپنی جگمگاہٹوں کی کہکشاں لئے ہوئے
''ستارہ بار و مہ چکاں و خورفشاں'' جمال یار
جہان نور کارواں بہ کارواں لئے ہوئے
وہ زلف خم بہ خم شمیم مست سے دھواں دھواں
وہ رخ چمن چمن بہار جاوداں لئے ہوئے
بہ مستیٔ جمال کائنات، خواب کائنات
بہ گردش نگاہ دور آسماں لئے ہوئے
یہ کون آ گیا مرے قریب عضو عضو میں
جوانیاں، جوانیوں کی آندھیاں لئے ہوئے
یہ کون آنکھ پڑ رہی ہے مجھ پر اتنے پیار سے
وہ بھولی سی وہ یاد سی کہانیاں لئے ہوئے
یہ کس کی مہکی مہکی سانسیں تازہ کر گئیں دماغ
شبوں کے راز نور مہ کی نرمیاں لئے ہوئے
یہ کن نگاہوں نے مرے گلے میں باہیں ڈال دیں
جہان بھر کے دکھ سے درد سے اماں لئے ہوئے
نگاہ یار دے گئی مجھے سکون بے کراں
وہ بے کہی وفاؤں کی گواہیاں لئے ہوئے
مجھے جگا رہا ہے موت کی غنودگی سے کون
نگاہوں میں سہاگ رات کا سماں لئے ہوئے
مری فسردہ اور بجھی ہوئی جبیں کو چھو لیا
یہ کس نگاہ کی کرن نے ساز جاں لئے ہوئے
ستے سے چہرے پر حیات رسمساتی مسکراتی
نہ جانے کب کے آنسوؤں کی داستاں لئے ہوئے
تبسم سحر ہے اسپتال کی اداس شام
یہ کون آ گیا نشاط بے کراں لئے ہوئے
ترے نہ آنے تک اگرچہ مہرباں تھا اک جہاں
میں رو کے رہ گیا ہوں سو غم نہاں لئے ہوئے
زمین مسکرا اٹھی یہ شام جگمگا اٹھی
بہار لہلہا اٹھی شمیم جاں لئے ہوئے
فضائے اسپتال ہے کہ رنگ و بو کی کروٹیں
ترے جمال لالہ گوں کی داستاں لئے ہوئے
فراقؔ آج پچھلی رات کیوں نہ مر رہوں کہ اب
حیات ایسی شامیں ہوگی پھر کہاں لئے ہوئے
(۲)
مگر نہیں کچھ اور مصلحت تھی اس کے آنے میں
جمال و دید یار تھے نیا جہاں لئے ہوئے
اسی نئے جہاں میں آدمی بنیں گے آدمی
جبیں پہ شاہکار دہر کا نشاں لئے ہوئے
اسی نئے جہاں میں آدمی بنیں گے دیوتا
طہارتوں کا فرق پاک پر نشاں لئے ہوئے
خدائی آدمی کی ہوگی اس نئے جہان پر
ستاروں کے ہیں دل یہ پیش گوئیاں لئے ہوئے
سلگتے دل شرر فشاں و شعلہ بار برق پاش
گزرتے دن حیات نو کی سرخیاں لئے ہوئے
تمام قول اور قسم نگاہ ناز یار تھی
طلوع زندگیٔ نو کی داستاں لئے ہوئے
نیا جنم ہوا مرا کہ زندگی نئی ملی
جیوں گا شام دید کی نشانیاں لئے ہوئے
نہ دیکھا آنکھ اٹھا کے عہد نو کے پردہ داروں نے
گزر گیا زمانہ یاد رفتگاں لئے ہوئے
ہم انقلابیوں نے یہ جہاں بچا لیا مگر
ابھی ہے اک جہاں وہ بدگمانیاں لئے ہوئے
(۳)
نئے زمانے میں اگر اداس خود کو پاؤں گا
یہ شام یاد کر کے اپنے غم کو بھول جاؤں گا
عیادت حبیب سے وہ آج زندگی ملی
خوشی بھی چونک چوک اٹھی غم کی آنکھ کھل گئی
اگرچہ ڈاکٹر نے مجھ کو موت سے بچا لیا
پر اس کے بعد اس نگاہ نے مجھے جلا لیا
نگاہ یار تجھ سے اپنی منزلیں میں پاؤں گا
تجھے جو بھول جاؤں گا تو راہ بھول جاؤں گا
(۴)
قریب تر میں ہو چلا ہوں دکھ کی کائنات سے
میں اجنبی نہیں رہا حیات سے ممات سے
وہ دکھ سہے کہ مجھ پہ کھل گیا ہے درد کائنات
ہے اپنے آنسوؤں سے مجھ پہ آئینہ غم حیات
یہ بے قصور جان دار درد جھیلتے ہوئے
یہ خاک و خوں کے پتلے اپنی جاں پہ کھیلتے ہوئے
وہ زیست کی کراہ جس سے بے قرار ہے فضا
وہ زندگی کی آہ جس سے کانپ اٹھتی ہے فضا
کفن ہے آنسوؤں کا دکھ کی ماری کائنات پر
حیات کیا انہیں حقیقتوں سے ہونا بے خبر
جو آنکھ جاگتی رہی ہے آدمی کی موت پر
وہ ابر رنگ رنگ کو بھی دیکھتی ہے سادہ تر
سکھا گیا دکھ مرا پرانی پیر جاننا
نگاہ یار تھی جہاں بھی آج میری رہنما
یہی نہیں کہ مجھ کو آج زندگی نئی ملی
حقیقت حیات مجھ پہ سو طرح سے کھل گئی
گواہ ہے یہ شام اور نگاہ یار ہے گواہ
خیال موت کو میں اپنے دل میں اب نہ دوں گا راہ
جیوں گا ہاں جیوں گا اے نگاہ آشنائے یار
سدا سہاگ زندگی ہے اور جہاں سدا بہار
(۵)
ابھی تو کتنے ناشنیدہ نغمۂ حیات ہیں
ابھی نہاں دلوں سے کتنے راز کائنات ہیں
ابھی تو زندگی کے نا چشیدہ رس ہیں سیکڑوں
ابھی تو ہاتھ میں ہم اہل غم کے جس ہیں سیکڑوں
ابھی وہ لے رہی ہیں میری شاعری میں کروٹیں
ابھی چمکنے والی ہے چھپی ہوئی حقیقتیں
ابھی تو بحر و بر پہ سو رہی ہیں میری وہ صدائیں
سمیٹ لوں انہیں تو پھر وہ کائنات کو جگائیں
ابھی تو روح بن کے ذرے ذرے میں سماؤں گا
ابھی تو صبح بن کے میں افق پہ تھرتھراؤں گا
ابھی تو میری شاعری حقیقتیں لٹائے گی
ابھی مری صدائے درد اک جہاں پہ چھائے گی
ابھی تو آدمی اسیر دام ہے غلام ہے
ابھی تو زندگی صد انقلاب کا پیام ہے
ابھی تمام زخم و داغ ہے تمدن جہاں
ابھی رخ بشر پہ ہیں بہمیت کی جھائیاں
ابھی مشیتوں پہ فتح پا نہیں سکا بشر
ابھی مقدروں کو بس میں لا نہیں سکا بشر
ابھی تو اس دکھی جہاں میں موت ہی کا دور ہے
ابھی تو جس کو زندگی کہیں وہ چیز اور ہے
ابھی تو خون تھوکتی ہے زندگی بہار میں
ابھی تو رونے کی صدا ہے نغمۂ ستار میں
ابھی تو اڑتی ہیں رخ بہار پر ہوائیاں
ابھی تو دیدنی ہیں ہر چمن کی بے فضائیاں
ابھی فضائے دہر لے گی کروٹوں پہ کروٹیں
ابھی تو سوتی ہیں ہواؤں کی وہ سنسناہٹیں
کہ جس کو سنتے ہی حکومتوں کے رنگ رخ اڑیں
چپیٹیں جن کی سرکشوں کی گردنیں مروڑ دیں
ابھی تو سینۂ بشر میں سوتے ہیں وہ زلزلے
کہ جن کے جاگتے ہی موت کا بھی دل دہل اٹھے
ابھی تو بطن غیب میں ہے اس سوال کا جواب
خدائے خیر و شر بھی لا نہیں سکا تھا جس کی تاب
ابھی تو گود میں ہیں دیوتاؤں کی وہ ماہ و سال
جو دیں گے بڑھ کے برق طور سے حیات کو جلال
ابھی رگ جہاں میں زندگی مچلنے والی ہے
ابھی حیات کی نئی شراب ڈھلنے والی ہے
ابھی چھری ستم کی ڈوب کر اچھلنے والی ہے
ابھی تو حسرت اک جہان کی نکلنے والی ہے
ابھی گھن گرج سنائی دے گی انقلاب کی
ابھی تو گوش بر صدا ہے بزم آفتاب کی
ابھی تو پونجی واد کو جہان سے مٹانا ہے
ابھی تو سامراجوں کو سزائے موت پانا ہے
ابھی تو دانت پیستی ہے موت شہریاروں کی
ابھی تو خوں اتر رہا ہے آنکھوں میں ستاروں کی
ابھی تو اشتراکیت کے جھنڈے گڑنے والے ہیں
ابھی تو جڑ سے کشت و خوں کے نظم اکھڑنے والے ہیں
ابھی کسان و کامگار راج ہونے والا ہے
ابھی بہت جہاں میں کام کاج ہونے والا ہے
مگر ابھی تو زندگی مصیبتوں کا نام ہے
ابھی تو نیند موت کی مرے لئے حرام ہے
یہ سب پیام اک نگاہ میں وہ آنکھ دے گئی
بہ یک نظر کہاں کہاں مجھے وہ آنکھ لے گئی
نظم
شام عیادت
فراق گورکھپوری