EN हिंदी
شام | شیح شیری
sham

نظم

شام

اختر عثمان

;

تو آ گئی شام
سرمئی وحشت و ہزیمت کے سائے سائے

میں درد ہا درد اک نئی نظم بن رہا ہوں
درخت آسیب زادگاں دیو پیکراں

چہچہے کراہیں
یہ پات نوحے پہ سینہ کوبی میں گم عزا دار

شاخچے برچھیوں کے پھل
غنچے زخم نا آشنائے مرہم

گھنے درختوں میں
زمزمہ ساز اپنی اپنی دھنوں کو ترتیب دے رہے ہیں

لہکتے پتوں کی تالیوں میں
حنائی ہاتھوں کے تھپتھپانے کا لمس ہے

شاخچوں کے پردوں سے منہ نکالے ہوئے یہ غنچے
کسی کو آواز دے رہے ہیں

نگار نکہت نے حجلۂ گل کا پردہ پردہ دیا ہے
وہ ہونٹ آواز دے رہے ہیں

یہ بعد کیا ہے؟
حیات و موت اور شادی و غم کے سلسلوں

میں یہ بعد کیا ہے
ظروف و احوال کے فسانے میں سب مظاہر

جدا جدا ہیں
میں اپنے ہونے میں سانحہ ہوں کہ

واقعہ ہوں؟
جو ایک منظر مجھے رلائے

وہی پرندے کی چونچ پر کھل کے چہچہائے
پھر آ گئی شام

سرمئی وحشت و ہزیمت کے سائے سائے