EN हिंदी
شاعر | شیح شیری
shair

نظم

شاعر

انجم اعظمی

;

نہ جانے کتنے ہی ماضی کے خواب بکھرے ہیں
فسردہ بھیگی ہوئی سوگوار پلکوں پر

جنوں ہے یا کہ خرد اس نگاہ کا مفہوم
خلا میں ڈھونڈ رہا ہے کوئی نہ جانے کیا

نگاہ دیکھ رہی ہیں پرے زمانے سے
ہے کھویا کھویا ہوا رمز زندگی گویا

فسانۂ غم جاناں ہے یا غم دنیا
مچل رہے ہیں ان آنکھوں میں آرزو کے شرار

ان آنسوؤں میں نمایاں ہیں وقت کی لہریں
سنائی دیتی ہے رہ رہ کے زندگی کی پکار

لبوں کو گر ملی جنبش تو نغمہ پھوٹ پڑا
کبھی نشاط کا جادو کبھی کوئی غم ہے

خموشیوں میں ہے ایمان و آگہی کی جلا
امید و بیم سے آگے نیا ہی عالم ہے

سحر کا نور ہے اس کی نگاہ میں انجمؔ
زمیں کے حسن کو شاداب کرنے آیا ہے