EN हिंदी
شاعر کی دنیا | شیح شیری
shair ki duniya

نظم

شاعر کی دنیا

امیراورنگ آبادی

;

ہوتا ہوں جب میں تنہا یہ سوچتا ہوں اکثر
آبادیاں ہیں اچھی یا جنگلوں کے منظر

شاعر ہوں میں مرا ہو مسکن الگ جہاں سے
شہروں کے شور و غل سے تاریک آسماں سے

سائے میں پیڑ کے میں بستر لگاؤں اپنا
ٹھنڈی ہوا ہو آتی بہتا ہو صاف دریا

رنگینیاں شفق کی دل کو مرے لبھائیں
شمس و قمر جہاں کے قصے نئے سنائیں

قدرت کا ہم زباں ہوں اور اس کے بھید پاؤں
گہرائیوں میں اس کی گویا اتر میں جاؤں

2
پر عقل کا ہے کہنا یہ سب غلط ہے ناداں

گونگی ہے تیری قدرت منظر ہیں اس کے بے جاں
بیکار ہے اگر تو دشت و جبل بسائے

بے صرفہ ہے اگر تو ہمدم انہیں بنائے
شاعر تجھے ہیں کہتے ہے عشق تیرا جینا

فطرت ہے پاک تیری ہے قلب طور سینا
تو نور سرمدی کی ہے جھلکیاں دکھاتا

انساں کو آسماں کی سیریں ہے تو کراتا
تیرا قلم جہاں میں ہلچل سی ڈالتا ہے

ڈوبے ابھارتا ہے گرتے سنبھالتا ہے
3

پر کیوں تجھے اے شاعر بستی سے ہے کدورت
آبادیوں میں پل کر آبادیوں سے نفرت

انساں اور اس کی فطرت پرکھی نہیں ہے تو نے
عالم اور اس کی وسعت پائی نہیں ہے تو نے

ماتم کہیں بپا ہے خوشیاں کہیں ہیں ہوتی
اقبال ہے کہیں تو قسمت کہیں ہے سوتی

جو اک طرف قضا کے طوفان آ رہے ہیں
تو اک طرف سحاب رحمت بھی چھا رہے ہیں

تیرا ہے رتبہ عالی اس بزم زندگی میں
آ آ شریک ہو جا اس رزم زندگی میں

آلام کو گھٹا دے آسائشیں بڑھا دے
شمع سخن جلا کر سب ظلمتیں ہٹا دے

آ کب سے منتظر ہے آدم کا یہ گھرانا
آباد اس میں ہو جا تیری یہی ہے دنیا