EN हिंदी
شاعروں کا جبر | شیح شیری
shaeron ka jabr

نظم

شاعروں کا جبر

تابش کمال

;

چائے کی بھاپ میں
گھلتے، معدوم ہوتے ہوئے قہقہے شام کا بانکپن

کوئی مصرع دھوئیں کے بگولوں میں کمپوز ہوتا ہوا
کوئی نکتہ جو اسرار کے گھپ اندھیرے سے شعلہ صفت سر اٹھائے

عجب دھیما دھیما نشہ اختلافات کا
اپنے نچلے سروں میں کوئی فکر مربوط کرتا ہوا زاویہ

طنز کے ناوک خوش سلیقہ کی سن سن
ہواؤں سے محفوظ سانسوں میں آراستہ مختلف سگریٹوں کی مہک

شام کے سرمئی بانکپن میں کسی کوٹ، مفلر، سوئیٹر سے اٹھتی ہوئی
خوشبوئے آشنا

جوڑتی ہے ہمیں اک سمے سے جو مدت سے
اک ناملائم زمانے میں محکوم ہے

کون لحظے کو واپس بلائے
سمے کو مکمل کرے

اپنی نظمیں اسی اک تسلسل زدہ دائرے میں ہیں
پرکار جن کی رہائی پہ مائل نہیں

ریستورانوں کے کونوں میں سہمی ہوئی
کتنی شاموں کا جادو یہاں سطر در سطر محبوس ہے

ہم جو قید زماں و مکاں سے نکلنے کو پر مارتے ہیں
بھلا شام ڈھلنے پہ الفاظ کے پنچھیوں کو جکڑتے ہیں کیوں

دام تصویر میں
یہ بگولے، دھواں، بھاپ اسیری کے عادی نہیں

شام خود رات کی گود میں جا کے گرنے کو بے تاب ہے