تم جو لفظوں کے گورکھ دھندے میں الجھے
بے رس شاعری کرتے ہو
لغت سے لفظ اٹھاتے ہو
اور دائیں بائیں ان کو چبا کر
شعر اگلتے رہتے
تم کو کیا معلوم
کہ کیا ہے عشق اور اس کی حقیقت کیا ہے
پیار ہے کیا اور چاہت کیا ہے
تم نے کسی کے ہجر میں کب
راتیں کاٹی ہیں...؟
کب تم وصل کے نشے سے سرشار ہوئے ہو
تم کو کیا معلوم
کہ ہونٹوں کا رس کیا ہوتا ہے
کیسے آنکھ سے گرتے آنسو موتی بن جاتے ہیں
تم کو کیا معلوم کہ کیسے
بازوؤں میں آ کر محبوب پگھل جاتے ہیں
تم کو کیا معلوم محبت کیا ہوتی ہے
تم کو کیا معلوم جدائی کی شب کیسے کٹتی ہے
اور دن کتنے ویراں ہوتے ہیں
تم کو کیا ہے
تم تو اپنی بیویوں سے بھی
ڈرے ڈرے
شرمندہ شرمندہ ہم بستری کرتے ہو
تم کو کیا معلوم ہے
شاعری
پورا مرد اور پوری عورت مانگتی ہے
تم نے کسی ہجڑے کے لب پر
شعر کا پھول کھلے دیکھا ہے
اس کی اجڑی ویراں آنکھ میں
نظم کا دیپ جلے دیکھا ہے
یہ تو ہو سکتا ہے
(اور اکثر ایسا ہوتا آیا ہے)
شاعر، ہجڑے ہو جاتے ہیں
لیکن کوئی ہجڑا
شاعر ہو نہیں سکتا
شاعری پورا مرد
اور پوری عورت مانگتی ہے
نظم
شاعری پورا مرد اور پوری عورت مانگتی ہے
حسن عباس رضا