EN हिंदी
شاعری مت کرو | شیح شیری
shaeri mat karo

نظم

شاعری مت کرو

خلیل مامون

;

کانٹوں کے تاج چنو
یا

جب سچ کی راہ چلو
لفظوں کے پیچ و تاب میں الو نہ بنو

شاعری مت کرو!
موٹے جھوٹے یجمانوں کی جھڑکیاں ہوں

یا کاہل ریاکار افسروں کا پھٹکاریں
یا پھر

دبلی پتلی دق زدہ بیویوں کے طعنے ہوں
یا طوطا چشم عیار رت بدلی

محبوباؤں کی جھوٹی مسکراہٹیں
خاموش رہو

ہر شے کو
قدرت کا کرشمہ سمجھو

پر خدا کے لیے
بھگوان کے لیے

شیطان کے لیے
شاعری مت کرو

منظر پس منظر
خاموش ہوتا ہے

پیڑ ساکت کھڑے رہتے ہیں
پتے ہلتے ہیں

پر نہ اڑتے ہیں
کہیں دور سے ریل کی سیٹیاں ابھرتی ہیں

اور نزدیک کے ریس کورس سے
بھاگتے تیزابی گھوڑوں کی ٹاپوں سے زیادہ

نو دولتیے گدھوں کی چیخ و پکار سے
کان پھٹنے لگتے ہیں

ہر کہیں کانوں کو
روئی میسر نہیں آتی ہے

کم از کم
آنکھیں موند لو

(یہ تمہارے بس میں ہے)
اندھیارے میں آوازیں زائل ہو جائیں گی

ذہن کے کالے پردے پر
کوئی تصویر نہیں ابھرے گی

کانوں میں
کوئی آواز نہیں آئے گی

گونگے بہرے اندھے ہو جاؤ
شاعری مت کرو

اور اندھیارے میں دور تلک دیکھتے جاؤ
دیر تلک

بے صبح و شام
بے جسم و جان

آکاش آسمان
دیکھتے جاؤ

شاید اسی لمحہ
یا کل پرسوں

یا صدیاں گزر جانے کے بعد
زمین اڑ جانے

آسمان بکھر جانے کے بعد
ہر شے کے مر جانے کے بعد

دھول سمٹ جائے گی
دھند مٹے گی

اندھیارے میں چاروں جانب
آئینہ ابھرے گا

کانوں میں نقرئی گھنٹیوں کے مدھم نغموں
کی شرابوں کا نشہ گونجے گا

چاروں سمت سنہری سفید موتی
سا چمکتا چہرا ابھرے گا

چاروں جانب سر سگندھ کی مالائیں
لہرائیں گی

نت نویلی صدا کی دوشیزہ
شاعری کی پالکی پر سوار آئے گی

مجھ کو
دور بدیس لے جائے گی