EN हिंदी
شاعر | شیح شیری
shaer

نظم

شاعر

ذیشان ساحل

;

شاعر
سپاہی کی طرح نہیں ہوتے

اور اسی لیے
جنگ میں کام نہیں آتے

اور ہوا نہیں بن سکتے
پانی نہیں بن سکتے

اور آگ بھی نہیں بن سکتے
وہ بارش بن جاتے ہیں

اور ہر طرف برسنے لگتے ہیں
وہ چڑیا بن جاتے ہیں

اور درختوں کی حفاظت کرتے ہیں
وہ جہاز بن جاتے ہیں

اور بادلوں کو چھونے لگتے ہیں
کوشش کرتے ہیں شاعر

خوشی بن جانے کی
اپنی ہتھیلیوں کو جوڑ کر

دنیا بھر کے آنسو جمع کرنے کی
کوشش کرتے ہیں شاعر

کہ ایک بھی قطرہ مٹی میں نہ ملنے پائے
تار کول میں نہ جمنے پائے

احساس ہوتا ہے انہیں موتیوں کی قدر و قیمت کا
اپنے خوابوں کی ریشمی ڈور سے مالا بناتے رہتے ہیں

ستارے نہیں جوڑتے وہ
آنسوؤں کے ساتھ

پھول نہیں پروتے اوس میں ڈوبے ہوئے
اپنی اس ڈور میں بہت سی چیزیں چھوڑ دیتے ہیں

وہ خالی رہ جانے والے دلوں کے لیے
درختوں کو بے جگہ نہیں کرتے

سایہ نہیں چراتے ان کا
گلہریوں کو نہیں مارتے

اپنی جیب میں چھپی مونگ پھلیاں
درخت کے پاس رکھ کے

نہ جانے کہاں چلے جاتے ہیں
نظر ہی نہیں آتے

درخت بتا نہیں پاتے
کہ شاعر آسمان کو چھوتا

ایک درخت بن کے
دنیا میں سما گئے ہیں