کسی قصائی نے
اک ہڈی چھیل کر پھینکی
گلی کے موڑ سے
دو کتے بھونکتے اٹھے
کسی نے پاؤں اٹھائے
کسی نے دم پٹکی
بہت سے کتے کھڑے ہو کر شور کرنے لگے
نہ جانے کیوں مرا جی چاہا
اپنے سب کپڑے
اتار کر کسی چوراہے پر کھڑا ہو جاؤں
ہر ایک چیز پہ جھپٹوں
گھڑی گھڑی چلاؤں
نڈھال ہو کے جہاں چاہوں
جسم پھیلا دوں
ہزاروں سال کی سچائیوں کو
جھٹلا دوں
نظم
ستمبر۱۹۶۵
ندا فاضلی