اسے سفر نامے
اور سیاحوں کی زندگی کی کہانیاں بہت پسند تھیں
اس نے مختلف ملکوں
اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں بہت کچھ معلوم کیا تھا
وہ کئی زبانیں
اور سفر کرنے کے تمام طریقے جانتا تھا
اور وہ یہ بھی جانتا تھا
کہ جب کوئی شخص کہیں نہ جا سکے
تو اسے کیا کرنا چاہیئے
وہ خواب دیکھتا تھا
اور ہر رات خود کو کسی نئی سر زمین پہ پاتا
وہ خواب دیکھتا تھا
جو انہیں چیزوں کے بارے میں ہوتے
لوگ اس کے خواب دلچسپی سے سنتے تھے
پھر ایک رات اس نے دیکھا
کہ وہ راستہ بھول گیا ہے
اور اس نے خود کو کبھی گرم ریت
اور کبھی دور تک پھیلی برف میں دھنسا ہوا پایا
اگلی صبح اس نے کسی سے کچھ نہیں کہا
اور ان ریاستوں کی طرف نکل گیا
جن پر کہیں نہ جانے والے لوگ چلے ہی جاتے ہیں
نئے یا پرانے نقشوں میں
ایسے بہت سے راستے دکھائے جاتے ہیں
جو کہیں نہیں جاتے
نظم
سیاح
ذیشان ساحل