کروڑوں جگوں سے مرے سامنے تھا
بہت دور تک کھولتی دوریوں کا سمندر
لجیلی سی چپ چاپ نیلاہٹوں کا سلگتا سا ساگر
سمندر کے اس پار منڈ کے اوندھے کنویں میں
کروڑوں جگوں کے سمے کی
دھندلکوں میں لپٹی ہوئی پارو رشک تہوں کید ہویں میں لگن لگن کے لہکے ہوئے پیڑ کی جھولتی ڈالیوں پر
اندھیروں کے شفاش پتوں کے اوجھل
گہر ان گنت رات بھر اس تاروں کی جن پر سجاتی
مدھرتا بھرے روپ میں چاند کی اس پر مسکراتی
جب اجلی رو پہلی سی چھاؤں میں آہستہ سے چھیڑ دیتی
کوئی رس میں بھیگا ہوا سا مسرت بھرا گیت دھرتی
کبھی مست نینوں کی جھیلوں کے جل میں
وہ بھیدوں بھری روشنی ڈلی کی طرح دور تک جا اترتی
کسی پیت جوڑے کی بہکی سی پرچھائیوں میں
کبھی رنگ سپنے کے جادو کا بھرتی
کبھی پیار کی آگ کے آنچلوں میں
وہ بیتے سموں کی مدھر یادیں بن کر بکھرتی
کبھی آگ برسات کی ٹھنڈی ٹھنڈی پون میں
برا کی کٹاروں سے گھائل دلوں کو دکھاتی
کبھی بھر کے سندر پلوں کی حسیں موتیا رنگ کی پیالیوں میں
محبت کی پیاسی اک اک آتما کو
منوہر ملن کی مدھر کلپناؤں کا امرت پلاتی
وہ بھر بھر کے مکھڑے کی مسکان سے بدلیوں کے کٹورے
کبھی اپنے ہی درپن ایسے بدن پر مزے سے لنڈھاتی
مگر آج دھرتی سے امبر کے اس پار حد نظر تک
خرد کی سہانی سہانی اڑانوں کا پل بن چلا ہے
بہت جلد اس پل کی پر نور رہ سے گزر کر
چہکتی ہوئی چاند کی اپسرا کو
رگوں میں رچائی ہوئی قر نہا قرن کی چاندنی کے عوض میں
میں ایٹم کے گمبھیر سایہ کی انمول سوغات دوں گا
میں بھٹکے ہوئے گیان کی قیمتی رات دوں گا
نظم
سوغات
تخت سنگھ