EN हिंदी
سودا گر | شیح شیری
sauda-gar

نظم

سودا گر

خلیلؔ الرحمن اعظمی

;

لو گجر بج گیا
صبح ہونے کو ہے

دن نکلتے ہی اب میں چلا جاؤں گا
اجنبی شاہراہوں پہ پھر

کاسۂ چشم لے لے کے ایک ایک چہرہ تکوں گا
دفتروں کارخانوں میں تعلیم گاہوں میں جا کر

اپنی قیمت لگانے کی کوشش کروں گا
میری آرام جاں

مجھ کو اک بار پھر دیکھ لو
آج کی شام لوٹوں گا جب

بیچ کر اپنے شفاف دل کا لہو
اپنی جھولی میں چاندی کے ٹکڑے لیے

تم بھی مجھ کو نہ پہچان پائیں تو پھر
میں کہاں جاؤں گا

کس سے جا کر کہوں گا کہ میں کون تھا
کس سے جا کر کہوں گا کہ میں کون ہوں