کتابوں کا زینہ بنا کر
مچانی سے میں نے مٹھائی چرائی تو
گھر میں کسی کو بھی غصہ نہ آیا
یہ کم سن ذہانت کی تاثیر تھی
یا شرارت کی شیریں شکر قندیوں جیسی عمروں کی لذت
ابھی تک وہ خوش ذائقہ واقعہ
جب رگ جاں میں گھلتا ہے
بچپن کے باغات کی تتلیاں
پھول بن کر برستی ہیں
پتھریلی عمروں کے دن رات کی
زرد کالی مصیبت کا غم بھول کر
مسکراہٹ کی میٹھی پھواریں
بیاباں کو جل تھل بناتی ہیں گاتی ہیں
ایک دو تین
اللہ میاں کی زمین
چار پانچ چھ سات
سارے مل کر کھائیں بھات
آٹھ نو دس پانی میٹھا رس
پانی کی لہروں پہ ہچکولے کھاتی ہوئی
کاغذی عمر کی ناؤ
کروٹ بدل کر الٹ دیتی ہے خواب سارے
کتابوں پہ گرتے ہوئے آنسوؤں سے
سیاہی کے دریا ہی بنتے ہیں
دریا سمندر بناتے ہیں
سارے سمندر سیاہی قلم بن گئیں ساری شاخیں
قسم انگلیوں کی
محبت بھرا خط مرے اور ترے درمیاں تیر ہے
میں لکھوں اور لکھتا رہوں تا قیامت
محبت کی نظمیں
مگر جانیاں ان کتابوں کو زینہ بنا کر
کئی بار میں نے
ترے آسمانوں پہ جا کر
تجھے ڈھونڈ لانے کی ناکام کوشش میں
آنسو بہائے
سیاہی کے دریا بنائے
کہاں ہے تو خود اپنی شیریں صدا سے
مری تیرہ بختی میں
شبھ رات کی مصریاں گھول دے
ماں تو ناراض ہے
اب کئی روز سے بولتی بھی نہیں
نظم
ستر ماؤں کا پیار
علی محمد فرشی