EN हिंदी
ستی | شیح شیری
sati

نظم

ستی

سرور جہاں آبادی

;

اے ستی اے جلوہ گاہ شعلۂ تنویر حسن
پاک دامانی کا نقشہ ہے تری تصویر حسن

یہ تن نازک ترا یہ شعلہ ہائے آتشیں
یہ چتا کی آتش سوزاں یہ جسم نازنیں

صاعقہ ہے برق کا تیرے دل مضطر کی آگ
پھونک دیتی ہے تجھے سوز غم شوہر کی آگ

خاک ہو کر بھی ترے داغ جگر بجھتے نہیں
آہ تیری راکھ کے برسوں شرر بجھتے نہیں

ہند کو ہے ناز تیری ہمت مردانہ پر
تو چراغ کشتہ ہے خاکستر پروانہ پر

آگ میں ہے تو سپند شوق جلنے کے لیے
شمع ماتم ہے شب غم میں پگھلنے کے لیے

گرمی ہنگامۂ محشر تری محفل میں ہے
سرد جو ہوتی نہیں وہ آگ تیرے دل میں ہے

کب گوارا آہ ہے سوز غم شوہر تجھے
ہے ہر اک تار نفس اک شعلۂ مضطر تجھے

اف ری شوہر کی چتا پر شعلہ افروزی تری
جیتے جی سوز محبت میں جگر سوزی تری

جاں گدازی کی ادا یہ شمع محفل میں کہاں
گرمی سوز وفا یہ شمع محفل میں کہاں

وہ چتا کی آتش جاں سوز، وہ دود سیاہ
شوہر مردہ کا سر وہ زانو نازک پہ آہ

آگ کے وہ ہائے شعلے اور وہ مکھڑا چاند سا
لب پہ کم کم شوخی برق تبسم کی ادا

ہلکا پھلکا جسم نازک پر دوپٹہ سرخ سرخ
وصل روحانی کی شادی سے وہ چہرہ سرخ سرخ

عالم دود سیہ وہ زلف عنبر فام میں
دوڑنے والے وہ شعلے حلقہ ہائے دام میں

آتش سوزاں میں بھی وہ آہ شوہر کا خیال
اور وہ دل میں گرمی ہنگامۂ شوق وصال

جل کے سوز اضطراب شوق میں پروانہ وار
خلد میں شوہر سے ہونا اف وہ خوش خوش ہمکنار

ڈال دینا وہ گلے میں ہنس کے بانہیں پیار سے
دل لبھا لینا ادائے شیوۂ گفتار سے

ہلکی ہلکی چاندنی کیفیت گل گشت باغ
وہ لب جو آہ حسن و عشق کے دو شب چراغ

تجھ پہ اے ناز آفریں شوہر پرستی ختم ہے
اک شرار آرزو میں تیری ہستی ختم ہے