EN हिंदी
سستی نظم | شیح شیری
sasti nazm

نظم

سستی نظم

انجیل صحیفہ

;

کیسے ماتم کروں
کیسے نوحے لکھوں

کیسے روحوں کی چیخوں سے نظمیں بنوں
جاگتی بین کرتی ہواؤں سے

جا کر لپٹ جاؤں کیا
کرچی کرچی یہ خوابوں کے اعضا جو بکھرے پڑے ہیں

انہیں دیکھ کر پھر پلٹ جاؤں کیا
اپنے اقدار سے قول و اقرار سے پیچھے ہٹ جاؤں کیا

مجھ کو اقرار ہے
میں نے خوابوں میں بچھڑے کئی خواب چہرے لکھے ہی نہیں

میں نے ہاتھوں میں پکڑے کسی ہاتھ کے خوف لکھے نہیں
میں نے آنکھوں سے بہتے لہو رنگ کو لال لکھا نہیں

میں نے اب تک کسی کوکھ ویرانی کا حال لکھا نہیں
کیوں یہ وحشی قلم میرے وجدان میں نظم بوتا نہیں

میرے الہام سے یہ جو لپٹا ہوا خوف کا عکس ہے کیوں یہ سوتا نہیں
اب کوئی حادثہ ہو بھی جائے اگر تو بھی ہوتا نہیں

نظم لکھوں مگر
اب مرے شہر میں نظم لکھنے پہ کوئی بھی روتا نہیں