یہ سرحدیں.... پڑوسنیں
کبھی ہنسی خوشی رہیں
کبھی ذرا سی بات ہو تو لڑ پڑیں
نہ آنگنوں میں ایک ساتھ رقص ہو
نہ بام پر ہی باہمی قدم پڑے
گلی میں کوئی کھیل ہو
نہ تال ہو، نہ میل ہو
کشیدگی کے نام پر گھٹن کی ریل پیل ہو
یہ سرحدیں.... پڑوسنیں
پڑوسنوں سے کیا کہیں
جہاں میں رنجشوں کے سب گلیشئر پگھل گئے
مگر یہاں کدورتوں کی برف ہے جمی ہوئی
ہوا سے کس طرح کہیں
چلے تو صرف ایک ہی طرف چلے
یہ دھوپ بھی تو کب کسی کے بس میں ہے
کہ پربتوں کو سرحدوں میں بانٹ دے
یہ خار دار دائرے کہیں بھی کھینچتے چلو
مگر کبھی کوئی صدا بھی رک سکی
یہ خوشبوؤں کے قافلے
رہیں گے ہر طرف رواں
گلی میں آ ہی جائیں گی
محبتوں کی تتلیاں
یہ سرحدیں.... پڑوسنیں
بنیں گی پھر سہیلیاں....!
نظم
سرحدیں
فاضل جمیلی