EN हिंदी
سرحد | شیح شیری
sarhad

نظم

سرحد

زید امبساط

;

سرحد کے اس پار جو کل
کچھ خون کہ چھینٹیں آئی تھیں

سرحد کے اس پار کہ تھیں
یا سرحد کے اس پار کہ تھیں

سرحد کے اس پار جو کل
ایک خاموشی چھائی تھی

سرحد کے اس پار ہی تھی
یا سرحد کے اس پار بھی تھی

سرحد کے اس پار جو کل
کچھ ذہن زخمی زخمی تھے

سرحد کے اس پار ہی تھے
یا سرحد کے اس پار بھی تھے

کل سرحد کی وہ بے چینی
اس پار کے منظر پہ ہی تھی

کے اس پار کے منظر پہ بھی تھی