EN हिंदी
سرحد پار کا ایک خط پڑھ کر | شیح شیری
sarhad-par ka ek KHat paDh kar

نظم

سرحد پار کا ایک خط پڑھ کر

ندا فاضلی

;

دوا کی شیشی میں
سورج

اداس کمرے میں چاند
اکھڑتی سانسوں میں رہ رہ کے

ایک نام کی گونج۔۔۔۔!
تمہارے خط کو کئی بار پڑھ چکا ہوں میں

کوئی فقیر کھڑا گڑگڑا رہا تھا ابھی
بنا اٹھے اسے دھتکار کر بھگا بھی چکا

گلی میں کھیل رہا تھا پڑوس کا بچہ
بلا کر پاس اسے مار کر رلا بھی چکا

بس ایک آخری سگریٹ بچا تھا پیکٹ میں
اسے بھی پھونک چکا

گھس چکا
بجھا بھی چکا

نہ جانے وقت ہے کیا دور تک ہے سناٹا
فقط منڈیر کے پنجرے میں اونگھتا پنچھی

کبھی کبھی یونہی پنجے چلانے لگتا ہے
پھر اپنے آپ ہی

دانے اٹھانے لگتا ہے
تمہارے خط کو۔۔۔۔۔