لرزتے کانپتے کمزور بوڑھے سورج کا
لہو بہا چکا قزاق آفریدۂ شب
نئی نویلی سہاگن کی مانگ کی مانند
سیاہ جھیل کے پانی میں سرخ سرخ لکیر
تمام کشتیاں ساحل کی سمت لوٹ گئیں
وہ دور چند گھروندوں کی چھوٹی سی بستی
بسی ہوئی ہے جو خوشبوئے ماہی و مے میں
ابھی ابھی یہ اندھیروں میں ڈوب جائے گی
پرندے اپنے بسیروں کی سمت اڑ بھی گئے
نہ بانسری ہے نہ بھیڑیں ہیں اور نہ چرواہے
گھنی گھنی سی اداسی تھکی تھکی سی یہ شام
ذرا ذرا سا اجالا ہے اب بھی لوٹ چلیں
اسی چٹان پہ کل کوئی اور بیٹھا تھا
اسی چٹان پہ کل کوئی اور بیٹھے گا
نظم
سرائے
اصغر مہدی ہوش