EN हिंदी
سراب | شیح شیری
sarab

نظم

سراب

احمد راہی

;

میں جہاں تھا
وہاں تیرگی تھی خموشی تھی افسردگی تھی

مرے کان نغموں سے محروم تھے
سسکیاں میرے ہونٹوں کی میراث تھیں

میری آنکھیں کسی سیل پر نور کی منتظر تھیں
مری زندگی راکھ کا ڈھیر تھی

میں یہاں آ گیا
اس طرح خلد میں

اس مسلسل اذیت سے کاہش سے بچنے کی خاطر
کہ جس سے فقط ایک میں ہی نہیں

میرے جیسے کئی اور بھی جاں بلب تھے
ترا خلد میرے لیے

میرے جیسے کئی دوسروں کے لیے
روشنی نغمگی سر خوشی کی علامت تھا یہ!

میں جہاں ہوں
وہاں تیرگی ہے خموشی ہے افسردگی ہے

مرے کان نغموں سے محروم ہیں
سسکیاں میرے کانوں کی میراث ہیں

میری آنکھیں کسی سیل پر نور کی منتظر ہیں
میری زندگی راکھ کا ڈھیر ہے!